۱۱ آبان ۱۴۰۳ |۲۸ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Nov 1, 2024
شیخ نعیم قاسم

حوزہ / حزب اللہ کے نئے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کہا: میں حزب اللہ کی شوری کا انتہائی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا میں اس سید عباس موسوی کا جانشین ہوں جنہوں نے مزاحمت کو زندہ رکھنے کی وصیت کی میں سید حسن نصراللہ کا جانشین ہوں جنہوں نے 32 سال صیہونیوں کو ناکوں چنے چبوائے ان شاء اللہ مزاحمت زندہ ہے اور زندہ رہے گی اور میں اس مشن کے کئے اپنی جان کی قربانی دینے کا عزم کرتا ہوں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حزب اللہ کے نئے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اپنے پہلا خطاب اس آيه قرآنی سے شروع کیا "لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ" (آل عمران 111)۔ ترجمہ: ہرگز وہ (یہودی) تمہیں چھوٹی موٹی اذیت کے علاوہ کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر وہ تم سے جنگ کرینگے تو پیٹھ دکھائیں گے اور پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے کہا: ہم نے بہت شہید دیے لیکن ہمیں یقین ہے کہ فتح ہماری ہی ہوگی۔ شہید یحییٰ سنوار فلسطین اور دنیا کے آزاد انسانوں لیے بہادری کی علامت تھے اور انہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک مزاحمت کی۔

حزب اللہ کے نئے سیکرٹری جنرل نے کہا: شہید ہاشم صفی الدین مزاحمتی جنگجوؤں کے بارے میں سوچتے تھے اور وہ محاذ کے ممتاز ترین لوگوں میں سے ایک تھے، جن پر شہید سید حسن نصر اللہ بہت زیادہ بھروسہ کیا کرتے تھے ۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا: میں حزب اللہ کی شوری کا انتہائی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔ میں اُس سید عباس موسوی کا جانشین ہوں جنہوں نے مقاومت کو زندہ رکھنے کی وصیت کی، میں سید حسن نصراللہ کا جانشین ہوں جنہوں نے 32 سال صیہونیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ ان شاء اللہ مقاومت زندہ ہے اور زندہ رہے گی اور میں اس مشن کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کا عزم کرتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا: سب سے پہلے ہم پر فرض تھا کہ ہم غزہ کی مدد کریں تاکہ خطے کو کنٹرول کرنے کے لیے اسرائیل کے خطرے کا سامنا کیا جائے، جس کا آغاز غزہ سے ہوا، غزہ کے لوگوں کا ہم پر جو حق تھا وہ ان کی مدد کرنا تھا، یہ ایک انسانی، عربی ۔ اسلامی اور مذہبی حق تھا۔

حزب اللہ کے نئے سیکرٹری جنرل نے کہا: ہم سے یہ نہ پوچھیں کہ ہم نے غزہ کی مدد کیوں کی بلکہ دوسروں سے پوچھیں کہ انہوں نے غزہ کی مدد کیوں نہیں کی۔ دشمن کے خلاف ہماری مقاومت کا آغاز مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے مقصد سے ہوا۔ حزب اللہ کی تشکیل سے پہلے اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو نشانہ بنانے کے بہانے لبنان میں داخل ہوا۔ ’’اسرائیل‘‘ کو اپنی جارحیت کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔

انہوں نے کہا: بین الاقوامی قراردادوں نے اسرائیلی دشمن کو لبنان سے نہیں نکالا، بلکہ مزاحمت نے ہمیشہ صیہونیوں کو رسوا کیا۔ یہ جنگ صرف لبنان اور غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ نہیں ہے، یہ امریکہ اور اسرائیل کی خطے کے لوگوں کو ختم کرنے اور انکی زمینوں پر قبضے کی عالمی جنگ ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے صیہونی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہماری سرزمین سے نکل جاؤ ورنہ بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .